مشرق وسطیٰ کے نقشے کو بدلنے کا مذموم منصوبہ

پوری دنیا پر حکومت کا ناپاک خواب دیکھنے والے اسرائیلی غلام امریکہ کی ترجیحات میں اسرائیل کے مفادات کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے۔ صہورنیوں کی عالمی تجارت کا دارومدار سونا، پیٹرولیم اور منشیات کی تجارت پر ہے۔ لیکن کچھ عرصہ سے اس نے منشیات سے بظاہر کنارہ کشی کرتے ہوئے صرف مشرق وسطیٰ کے پیٹرولیم اور معدنی خذانوں پر اپنی بری نظر لگائے ہوا ہے۔ دنیا بھر میں صہیونی اور سلیبی دہشت گردی جاری رکھنے کے لئے دونوں ہی بدنام زمانہ دہشت گرد، عرب کے پیٹرولیم پر انحصار کئے ہوئے ہیں جو کہ انہں بیٹھے بٹھائے حاصل ہو رہی ہے۔ کتنی عزیب بات ہے کہ پیٹرولیم عرب میں نکلتا ہے اور اس کی قیمت کا تعین امریکہ میں بیٹھی صہیونی لابی کرتی ہے۔
عراق کے خلاف تمام تر کارروائیاں، پابندیاں، طرح طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں وغیرہ کا ایک ہی مقصد، عراق کے پیٹرولیم اور مدہنیات پر قبضہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایک مستقل پناہ گاہ کا قیام تھا۔ جسے اب دنیا خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔ اس مقصد میں امریکہ کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹ کر وہاں سے مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کی مذموم منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
ذرائع ابلاغ کی چیخ و پکار کے مطابق عراق سے امریکی افواج وطن واپس ہو رہی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عراق میں نئے سٹریٹجک امن معاہدہ کے تحت وہاں امریکی فوجی چھاؤنیاں بڑی تعدات میں بن رہی ہیں، امریکی عسکری ٹھکانے اب بڑے بڑے فوجی کیمپوں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور ان کیمپوں میں ہر قسم کے جدید و نیوکلیئر اسلحہ موجود ہے۔ مغربی عراق میں ایک اسرائیلی کمپنی ’کے بی آر‘ کے تحت ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی ماہرین بڑے بڑے دفاعی پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہاں ایک لمبا چوڑا ہوائی اڈا کی بھی تعمیری کام ترقی پذیر ہے۔ ابھی سے ہی اس ہوائی اڈے پر امریکی طیاروں کی شب و روز آمد و رفت جاری ہے ۔ ایک امریکی فوجی کمانڈر کے مطابق یہ ہوائی اڈا لمبا و چوڑا اس لئے کیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں سے زیادہ مصروف ہونے والا ہے۔ معلوم ہو کہ اس ہوائی اڈے میں ۱۸۸ ایف-۱۶ طرز کے جہاز، ۱۵ فائر فائٹر ائرکرافٹ و بمبار طیارے اور تقریباً ۷۰ ہیلی کاپٹرز پہلے سے موجود ہیں۔ اس کام میں امریکہ اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے اور اپنی عسکری تعداد مسلسل بڑھا رہا ہے۔ اس وقت عراق میں ۵۰ فوجی بیس کیمپ ایسے ہیں جنہیں حال ہی میں تیار کیا گیا ہے۔ عراقی حکومت کے سابقہ عہدیدار طارق ہاشمی کے بیان کے مطابق اس وقت عراق مین ۴۰۰ امریکی عسکری چھاؤنیاں موجود ہیں۔ اس طرح امریکہ اپنے آقا اسرائیل کے ایجنڈے کے تحت عراق کو آہستہ آہستہ اسرائیل کے کنٹرول میں دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ عراق اسرائیل کی کنٹرول میں آنے کے بعد اسرائیل وہاں سے ایک طرف ایران، پاکستان و چین پر اور دوسری طرف مشرق وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری پوری طرح مکمل کرنے کی کوشش کریگا۔
امریکہ کی مرضی کے مطابق عراق پر عائد زیادہ تر پابندیاں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ختم کرنے کی منظوری دے دی ہے جو صدام حسین کے دور صدارت میں ان پر غیر انسانی و غیر قانونی طریقہ سے عائد کی گئی تھی۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ ایران برابر پابندیاں ختم کرنے کے لئے سلامتی کونسل سے درخواست اور مزاکرات کا سلسلہ جا ری کئے ہوا ہے پھر بھی اس کی کوئی سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔ جبکہ نئی عراقی حکومت نے اب تک پابندیاں ختم کرنے کے متعلق کوئی درخواست جمع نہیں کیا ہے، اس پر سے پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں۔
ایک خبر آئی ہے کہ فرانس نے مغربی عراق کے سب سے زیادہ شورش زدہ ضلع ’انبار‘ میں اپنا قونصلیٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فرانسیسی سفیر نے ’انبار‘ کے ضلعی انتظامیہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ ضلع میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے کے لئے مختلف سرمایہ کار کمپنیوں کو بھی تیار کریں گے جو کہ اس ضلع میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً سرمایہ کاری کریں گی۔ سرمایہ کاری کی پیشکش، فوجی کیمپ میں اضافہ اور ہوائی اڈے کی تعمیر نو، پابندیوں کا بغیر درخواست خاتمہ وغیرہ وغیرہ سب کچھ نارمل نہیں ہے! اللہ تعالیٰ مشرق وسطیٰ کو مزید کمزور ہونے سے بچائے۔ آمین!



تبصرہ کریں